Friday, 6 September 2013

شطرنج

  لاکھ سر کھپایا  مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ سر کے اس کھپانے سے کیا حاصل ؟
کہا گیا شاھوں کا کھیل ہے .... ہاں صاحب محمد شاہ رنگیلے ایسے بادشاہ جب لڑنے نکلتے تو مکمّل اہتمام کے ساتھ ،کنیزیں اور لونڈیاں ہی نہیں مہندی سے لدے چھکڑے تک ساتھ ہوتے .تو قیاس یہی کہتا ہے کہ سامان شطرنج بھی ضرور ساتھ  رکھتے ہوں گے کہ "ہماری طبع کو ویسے ہی جنگ و قتال سے گریز ہے میدان جنگ کے کسی پرسکون گوشے میں بیٹھے کھیلتے رہیں گے!!"
 
دروغ بر گردن کمزور !قصّہ مشہور ہے کہ جب شطرنج کے موجد نے اپنا یہ شاہکار شاہ وقت کے حضور پیش کیا تو جہاں پناہ بے حد خوش ہوے (جیسے اس زمانے کے بادشاہ ،بات بے بات ہو جایا کرتے تھے )مسکرا کے فرمانےلگے .ا "مانگ کیا مانگتا ہے ".موجد نے دست بستہ عرض کی "حضور اور تو کچھ نہیں بس تھوڑے سے چاول عنایت کر دیجیے ".پہلے خانے میں ایک دانے سے شرو ع کیجیے اور اسے دگنا کرتےجائیے کل چونسٹھ خانے ہیں اس بساط کے ،بس یہ بھروا دیجیے بڑی نوازش ہو گی". بادشاہ سلامت پھر مسکراۓ اور بڑی رعو نت کے ساتھ بولے" بس ؟ .....کچھ اور بھی ماانگ لیتے" .مگر وہ رند زیرک اسی پر بضد رہا چنانچہ شاہ نے بساط بھرنے کا حکم جاری کر دیا .بات پہلے خانے میں ایک دانے سے شروع ھوئی اور دیکھتے دیکھتے لاکھوں من تک جا پہنچی ،تمام سلطنت کا غلّہ بمع غرور شاہ ختم ہو گیا مگر بساط بھرنے میں نہ آتی تھی .آخر آخر میں بادشاہ ہاتھ جوڑنے پر آ گیا کہ بس کرو مرے حال پر رحم کھاؤ غریب ملک کا بادشاہ ہوں یہ بساط بھرنا میری بساط سے باہر ہے . گھٹنے ٹیکے ،ناک رگڑی تب کہیں جا کر موجد نے معاف کیا .
"دیکھا اس فرعون نے دل کے آخر آن ذلیل کیا !!"
تو پیارے بچو اس سے یہ ثابت ہوا کے عقل و حکمت سے عاری ہونے کی صفت فاخرہ صرف آج کے حکمرانوں میں نہیں ،ہمارے ہاں اس کی روایت بہت پرانی ہے .

No comments:

Post a Comment